ییٹی کی موجودگی کا دعویٰ کرنے والا پروفیسر جعلی نکلا

9  اپریل‬‮  2015

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) برفانی آدمی کی موجودگی ،اڑن طشتری، ایمازون لائٹس کی طرح کا ایک پراسرار موضوع ہے جس پر سائنسی ماہرین اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں تاہم اس حوالے سے حتمی ثبوت آج تک نہیں مل سکے ہیں جو کہ برفانی آدمی کی موجودگی کا پتہ دے سکیں۔گزشتہ ہفتے بین الاقوامی میڈیا میں اس حوالے سے ایک پروفیسر کے بیان نے کھلبلی مچا دی تھی جس کے مطابق ان کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ1800میں روس سے ملنے والی جنگلی عورت جس کے بارے میں نیم انسان ہونے کا امکان ظاہر کیا جاتا رہا ہے، دراصل برفانی انسان ہی تھی۔ پروفیسر برائن کے اس دعوے کو بے پناہ اہمیت دی گئی تاہم اب مختلف ذرائع دعویٰ کررہے ہیں کہ درحقیقت پروفیسر کا یہ دروغ گوئی پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ الفاظ کے ہیرپھیر سے ایسا ہی ملتا جلتا دعویٰ موصوف2013میں بھی کرچکے ہیں۔یہ وہی پروفیسر ہیں جنہوں نے قبل ازیں برفانی ریچھوں اور ییٹی کے بیچ بھی تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی تھی تاہم سائنسدانوں نے اسے بھی رد کردیا تھا۔
حالیہ دعوے میں پروفیسر برائن کا کہنا تھا کہ انہوں نے مذکورہ خاتون زینا اور اس کے بیٹوں کے دانت اور تھوک کے ڈی این اے سیمپلز اور ان پر کی گئی تحقیق کا مشاہدہ کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ پروفیسر صاحب نے اپنے دعوے میں یہ بھی کہا تھا کہ ان کا تعلق آکسفورڈ یونیورسٹی سے ہے، حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کے جس شعبے سے اپنا تعلق ظاہر کیا تھا، وہ جامعہ میں موجود ہی نہیں۔ خود پروفیسرصاحب کا ہی یہ دعویٰ بھی ہے کہ ان کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ عورت کے آبا کا تعلق افریقی نسل سے تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افریقی نسل سے مراد کوئی جانور یا غیر انسانی نسل ہوتا ہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہے نہ ہی سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ افریقی نسل کے افراد کے آباءکسی اور نسل سے تعلق رکھتے تھے اور ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد اپنی موجودہ شکل کو پہنچے تھے۔ ایسے میں یہ اگر مذکورہ خاتون کے ڈی این اے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا اصل تعلق افریقہ سے تھا اور وہ حوادث زمانہ کا شکار ہوکے روس جاپہنچی تھی تو یہ دعویٰ کہاں سے اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ درحقیقت اس عورت کا تعلق مبینہ برفانی آدمیوں کی نسل سے تھا۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ پروفیسر برائن نے اپنے اسی مفروضے کو نہایت عمدگی سے ایک کتاب کی شکل میں بھی ڈھالا ہے جس کا نام ”دی نیچر آف دی بیسٹ“ رکھا گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا یہ تازہ ترین بیان اس کتاب کی شہرت کی ایک بھونڈی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔ دراصل پروفیسر برائن نے اپنے تازہ ترین بیان کے ذریعے ایک جوا کھیلا تھا اور ان کا داو¿ کم از کم عارضی طور پر ہی سہی مگرٹھیک نشانے پر بیٹھا۔ پروفیسر کے اس بیان کو امریکہ و برطانیہ سمیت میڈیا کے چوٹی کے اداروں نے اہمیت دی تاہم کسی نے بھی اس بارے میں غور کی زحمت گوارا نہ کی کہ وہ پروفیسر کے ان دعووں کے حوالے سے کتاب کھول کے دیکھ بھی لیتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس کتاب کو راتوں رات شہرت ملی اور ایمازون پر اس کی فروخت میں اضافہ ہوا تاہم جب مذکورہ شعبے کے ماہرین کو اس ”انوکھی پیش رفت“ کے بارے میں معلوم ہوا تو ان کی تربیت نے انہیں اس کا کھوج لگانے پر مجبور کردیا جس سے پروفیسرکا راز فاش ہوگیا۔یاد رہے کہ یہ وہی پروفیسر برائن ہیں جو کہ اس سے قبل برفانی ریچھوں کے بالوں کے حوالے سے بھی ایسے ہی ملتے جلتے دعوے کرچکے ہیں تاہم دیگر سائنسی ماہرین نے ان کے تحقیقی طریقہ کار کو ہی مشکوک قرار دیتے ہوئے ان کی تحقیق کو مسترد کردیا تھا۔



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…